ترے دیار تلک یوں تو آ ہی جاتے ہیں
ترے دیار تلک یوں تو آ ہی جاتے ہیں
یہ اور بات تصور میں جی جلاتے ہیں
مری اداس نظر کا خیال ہے ورنہ
اسے تو چاند ستارے بہت بلاتے ہیں
تمام عمر بھٹکتے رہے جو صحرا میں
انہیں یہ وہم کہ وہ راستہ دکھاتے ہیں
ستم کی بھیک سہی دوستوں کا تحفہ ہے
بڑی خوشی سے یہ احسان ہم اٹھاتے ہیں
ہماری نظروں کی پاکیزگی سلامت ہے
اسی کمال پہ دنیا کو ہم جھکاتے ہیں
یہ کربلا ہے تو اب لوٹ کر کہاں جائیں
تمام راستے اپنے یہیں پہ آتے ہیں
اسے جو منصب و جاہ و جلال پیارا ہے
تو ہم بھی کاسۂ تہمت کہاں اٹھاتے ہیں
- کتاب : مرے تصور میں رنگ بھردو (Pg. 37)
- Author : بسمل عارفی
- مطبع : نور پبلی کیشن، دریا گنج،نئی دہلی (2019)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.