ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا
میں آج تیرا گریبان پھاڑ ڈالوں گا
طرح طرح کے شگوفے جو چھوڑتا ہے تو
میں دل کا باغ نمو ہی اجاڑ ڈالوں گا
کہاں کا سیل اجل تا کنار گاہ عبد
میں ہوں عدم میں سبھی کو لتاڑ ڈالوں گا
بہت ادا سے تو گزرا ہے چشمہ ساروں سے
یہ سن کہ راہ میں تیری میں باڑ ڈالوں گا
شگفتگی کی تری یاد جو دلاتے ہیں
میں ایسے سارے ہی پودھے اکھاڑ ڈالوں گا
یہ طے کیا ہے کہ دریا موج مستی کو
سراب دشت تپیدا میں گاڑ ڈالوں گا
تمام نقش تمنا فریب تھے سو تھے
میں سارے نقش تمنا بگاڑ ڈالوں گا
جو رشتہ ہے دل جاں کا ہے سر بہ سر جھوٹا
سو میں تو اب دل و جاں میں دراڑ ڈالوں گا
جھنڈولے بالوں کی پر فتنہ اس سے کہہ دینا
میں اس کمین کو زندہ ہی گاڑ ڈالوں گا
مجھے تو اب اسے دنگل میں گندہ کرنا ہے
سو میں اسے برے حالوں پچھاڑ ڈالوں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.