ترے کرم کا مرے دشت پہ جو سایا ہوا
ترے کرم کا مرے دشت پہ جو سایا ہوا
مجھے لگا ہی نہیں میں بھی ہوں ستایا ہوا
وہ تجربات کی حد سے نکل گیا آگے
وہ ایک شخص کہ تھا میرا آزمایا ہوا
کسی کے دست حنائی کا لمس روشن تھا
کوئی چراغ نہ تھا ہاتھ میں چھپایا ہوا
ہمارا نام نہیں ہے ہمارا ذکر نہیں
مگر یہاں سے کوئی لفظ ہے مٹایا ہوا
میں کیسے اس سے الگ ہو کے دیکھ سکتا ہوں
کسی کا رنگ رگ و پے میں ہے سمایا ہوا
وہ عافیت ہے جہاں جی رہے ہیں برسوں سے
اسی گلی میں ہے پودا مرا لگایا ہوا
ہوا چلی تو سفر سہل ہو گیا اطہرؔ
سفینہ تھا کسی طوفاں سے ڈگمگایا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.