ترے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں
ترے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں
سخن کے پاؤں مرے لڑکھڑانے لگتے ہیں
جو ایک دست بریدہ سواد شوق میں ہے
علم اٹھائے ہوئے اس کے شانے لگتے ہیں
میں دشت ہو کی طرف جب اڑان بھرتا ہوں
تری صدا کے شجر پھر بلانے لگتے ہیں
خبر بھی ہے تجھے اس دفتر محبت کو
جلانے جلنے میں کیا کیا زمانے لگتے ہیں
یہ گرد ہے مری آنکھوں میں کن زمانوں کی
نئے لباس بھی اب تو پرانے لگتے ہیں
تمہارے میوۂ لب کو نگہ سے چھوتے ہی
عجیب لذت نایاب پانے لگتے ہیں
جو سنسناتا ہے کوفہ و نینوی کا خیال
گلوئے جاں کی طرف تیر آنے لگتے ہیں
- کتاب : جسم کا برتن سرد پڑا ہے (Pg. 49)
- Author : امیر حمزہ ثاقب
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.