ترے خیال کے پھولوں سے رنگ و بو نکلے
ترے خیال کے پھولوں سے رنگ و بو نکلے
جو تو نہیں ہے تو پھر تیری آرزو نکلے
کہیں تو ختم کہانی ہو رائیگانی کی
کہیں تو پیاس کے صحرا میں آب جو نکلے
یہ عشق جنس گراں قدر ہے کچھ ایسا ہی
سمائے سر میں یہ سودا تو آبرو نکلے
عجیب ہے یہ تجسس ترا کہ جی چاہے
تو مل بھی جائے تو تیری نہ جستجو نکلے
تو کیا عجب ہے ترا اسم رات پڑھتے ہوئے
چراغ تیز ہواؤں کے روبرو نکلے
رہا نہ ہوش کبھی اپنے حال کا جن کو
ترے خیال کی گلیوں میں با وضو نکلے
پڑے جو عمر کی گدرائی ساعتوں میں کہیں
وہ عکس شیشۂ دل سے نہ پھر کبھو نکلے
یہ ہجر زاد ہوائیں کریں جو بین کبھی
تو پھر چراغ کی آنکھوں سے بھی لہو نکلے
مزا تو جب ہے کہ اک دوسرے کی چاہت میں
مکاں سے نکلوں میں اور لا مکاں سے تو نکلے
ہمی نے دار کو چوما تھا نام پر اس کے
یہ ہم ہی تھے جو محبت میں سرخ رو نکلے
کچھ ایسے روح میں اپنی تو رقص کر جیناؔ
بجیں جو سانس کے گھنگھرو تو صرف ہو نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.