تری جلوہ گاہ سے اٹھ کے ہم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
تری جلوہ گاہ سے اٹھ کے ہم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
وہیں دیر بھی تھا وہیں حرم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
ہمیں آج آپ کے عشق نے وہ مقام خاص عطا کیا
ہوئے بے نیاز نشاط و غم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
یہ فنا بقا کی نوازشیں یہ حیات و موت کی پرسشیں
ترے درد ہجر کا ہے کرم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
نہ قرین لطف و کرم ہوئے نہ رہین جور و ستم ہوئے
جو تھے اہل دل وہ تری قسم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
ہمیں ناز عشق نے دی صدا کبھی التفات پکار اٹھا
جو وفا شناس تھے ہر قدم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
وہ فسون منزل آگہی وہ سکوت محفل بے خودی
چلے درمیان سے بچ کے ہم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
ادھر ان کے رخ سے نقاب اٹھا ادھر اپنا ہوش نظر گیا
وہ پکارتے رہے دم بہ دم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
ہے کمالؔ بادہ کشی کا یہ کہ خیال چشم جو آ گیا
ہوئے ایسے بے خود و مست ہم نہ ادھر گئے نہ ادھر گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.