تشنہ لبوں کی نذر کو سوغات چاہئے
تیرے نثار تھوڑی سی برسات چاہئے
اتنا بھی میکدے پہ نہ پہرے بٹھائیے
کچھ تو خیال اہل خرابات چاہئے
آپس کی گفتگو میں بھی کٹنے لگی زباں
اب دوستوں سے ترک ملاقات چاہئے
مدت سے چشم و دل میں کوئی رابطہ نہیں
کیا اور تجھ کو گردش حالات چاہئے
کس کس خدا کے سامنے سجدہ نہیں کیا
کچھ شرم کچھ تو آبروئے ذات چاہئے
ذکر پری وشاں کے زمانے گزر گئے
اب تو غزل میں حمد و مناجات چاہئے
انصاف کی یہ آنکھ یہ سورج کی روشنی
یا رب یہی ہے دن تو مجھے رات چاہئے
ہم چاہتے ہیں دہر میں جینے کا حق ملے
ان کو ثبوت فرخیٔ ذات چاہئے
کچھ بھی ہو مصلحت کا تقاضا مگر ندیم
جو دل میں ہو زباں پہ وہی بات چاہئے
اے زلف ناز کوئی ہوائے فسوں کا دام
اہل نظر کو سیر طلسمات چاہئے
تاب کمند کاکل خم دار ہوشیار
کھل کر نہ ہر کسی پہ عنایات چاہئے
طاہرؔ جزائے ہمت عالی ہے زلف یار
زلفوں سے کھیلنے کے لیے ہات چاہئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.