تشنگی تپتی ہواؤں سے بجھاتے دیکھا
تشنگی تپتی ہواؤں سے بجھاتے دیکھا
پھر اسے ریت کے دریا میں نہاتے دیکھا
کوئی موسم ہو علامت تھا وہ شادابی کی
در بدر آج اسے خاک اڑاتے دیکھا
اپنی مٹھی میں دبائے تھا وہ صدیاں لیکن
سر کو اک لمحے کے آنچل میں چھپاتے دیکھا
کیسے کیسے در نایاب ملے مٹی میں
موج در موج اسے اشک بہاتے دیکھا
دشت امید میں ہر چند وہ تنہا تھا مگر
بے تحاشہ اسے آواز لگاتے دیکھا
اور پھر توڑ دیا اس نے تعلق کا حصار
وہ اکیلا تھا جہاں تک اسے جاتے دیکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.