تو اب حالت میں اپنی یوں بھی تبدیلی نہیں ہوتی
تو اب حالت میں اپنی یوں بھی تبدیلی نہیں ہوتی
یہ مٹی خون بھی پی کر کبھی گیلی نہیں ہوتی
ہوا جاتا ہے قدرت کے اصولوں میں دخیل انساں
ہوا اب تو دسمبر میں بھی برفیلی نہیں ہوتی
چلو آنکھوں سے اب کے بات کر کے دیکھتے ہیں ہم
زباں سے بات تو ہوتی ہے تفصیلی نہیں ہوتی
وہ جو محسوس کرتی ہے بیاں کرتی ہے اب کھل کر
غزل پہلے زمانے جیسی شرمیلی نہیں ہوتی
ہمیں ہے شوق ایسا ٹھوکروں کو آزمانے کا
کہ اس رہ پر نہیں چلتے جو پتھریلی نہیں ہوتی
سنبھل کر اے عبیدؔ خوش گماں رہنا ٹھہر کر یاں
بلا مقصد میاں رسی کبھی ڈھیلی نہیں ہوتی
- کتاب : سخن دریا (Pg. 54)
- Author : عبید الرحمن
- مطبع : عرشیہ پبلی کیشن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.