تو پھر کیا راہ ہستی میں کوئی نازک مقام آیا
تو پھر کیا راہ ہستی میں کوئی نازک مقام آیا
زباں پر آج یہ بے ساختہ کیوں ان کا نام آیا
کہاں تک احتیاط سجدہ ہوتی راہ الفت میں
کہیں طور نظر آیا کہیں دل کا مقام آیا
جدا مقصد جدا مشرب جدا راہیں جدا منزل
نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا
کرشمہ سازیٔ فکر و نظر کا پوچھنا کیا ہے
طلوع صبح سے پہلے مجھے پیغام شام آیا
جہاں پر پھول کھلتے تھے وہاں کانٹے ہوئے پیدا
یہ کس کے دست قدرت میں گلستاں کا نظام آیا
خدا معلوم وہ ہیں یا ہے نیرنگی تصور کی
نظر کے سامنے اک پیکر حسن تمام آیا
حیات و موت کو یہ کشمکش دیکھی نہیں جاتی
اجل اس سمت آئی اس طرف ان کا پیام آیا
خلشؔ فطرت کی گل افشانیاں میرے ہی دم تک تھیں
نہ پھر کوئی نوید آئی نہ پھر کوئی پیام آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.