توڑ دی زنجیر رشتوں کی پرائے شہر میں
توڑ دی زنجیر رشتوں کی پرائے شہر میں
بات صدیوں کی نہ لمحوں کی پرائے شہر میں
ایک ہی شدت کے جھونکے سے بکھر کے رہ گئی
زندگی تھی کچے دھاگوں کی پرائے شہر میں
دوست تھا کوئی نہ دشمن ہی کہ سمجھاتا مجھے
بے بہا ہے کھوج خوشیوں کی پرائے شہر میں
مہ رخوں زہرہ جبینوں کی نہ اب پریوں کی بات
ہر طرف ہے مثل حوروں کی پرائے شہر میں
سب ہی جھوٹی شان و شوکت کے نشے میں چور ہیں
کس کو ہوتی قدر جذبوں کی پرائے شہر میں
پھول گھر ہم نے بنانے کو کہا تھا اور وہ
رکھ گیا بنیاد کانٹوں کی پرائے شہر میں
سنگ جو بھی جس جگہ دیکھا اسے پیکر دیا
یہ عبادت میں نے برسوں کی پرائے شہر میں
اجنبی شاخوں پہ بیٹھے تھے جب آئے لوٹ کر
میری حالت تھی پرندوں کی پرائے شہر میں
فاصلے طے کر کے ایرجؔ آ گیا ہوں دشت سے
پھر نہ یاد آئی غزالوں کی پرائے شہر میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.