تم اپنے ساتھ مری چشم تر بھی لے جاؤ
تم اپنے ساتھ مری چشم تر بھی لے جاؤ
سفر طویل ہے اک ہم سفر بھی لے جاؤ
نظر میں رونق دیوار و در بھی لے جاؤ
یہ کیا کہ دشت نوردی میں گھر بھی لے جاؤ
ان آندھیوں میں بھروسہ ہی کیا چراغوں کا
سجا کے اپنی ہتھیلی پہ سر بھی لے جاؤ
تم اپنی رات سجاؤ نئے اجالوں سے
ہمارا کیا ہے ہمارا سحر بھی لے جاؤ
ملیں گے زخم بہت زندگی کے میلے میں
تم اپنے ساتھ ہمارا جگر بھی لے جاؤ
میں ایک راہ کا پتھر سہی مگر لوگو
کبھی مجھے کسی آذر کے گھر بھی لے جاؤ
تمہارے ہاتھ کی خوشبو ضرور مہکے گی
ہماری خاک سے کوئی شرر بھی لے جاؤ
میں زندگی کے اندھیروں کا درد سہہ لوں گا
تم اپنی یاد کے شمس و قمر بھی لے جاؤ
میں بدرؔ خود ہی مسیحا ہوں اپنے زخموں کا
یہ جرم ہے تو مجھے دار پر بھی لے جاؤ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.