تم جو جیتے ہو کئی بار نہ جانے کیسے
تم جو جیتے ہو کئی بار نہ جانے کیسے
اب اگر ہار گئے ہو تو بہانے کیسے
ہم نے دیکھا نہیں مڑ کر کبھی ماضی کی طرف
ہم سے مت پوچھ کہ گزرے ہیں زمانے کیسے
میں نے جلتے ہوئے منظر تو نہیں دیکھے تھے
راکھ کا ڈھیر ہوئے خواب سہانے کیسے
اجتہاد ان کے عمل کی رہی بنیاد اگر
ہو گئے ایسے بڑے لوگ پرانے کیسے
پہلے ہم نیند سے اٹھیں تو اٹھائیں یہ سوال
خود جو سوئے ہیں چلے آئے جگانے کیسے
چلئے توحید پرستوں کو سمجھ آ ہی گیا
وقت کے ساتھ بدلتے ہیں ٹھکانے کیسے
جس میں آنے پہ نہ جانے پہ کوئی قدرت ہے
ایسی محفل میں سناؤں میں ترانے کیسے
کھلتے ہیں باغ خرد میں یہ متانت کے گل
جو ہیں بے چین طبیعت وہ سیانے کیسے
بستیاں روز غریبوں کی اجڑتی ہیں جہاں
گونجتے ہیں وہاں رہ رہ کے ترانے کیسے
بات راہبؔ یہ ذرا سی نہ سمجھ پائے تم
روبرو اس کے چلیں گے یہ بہانے کیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.