تم سلامت رہو وحشت جاں سے کیا کچھ ہوائے زمستاں ہی بہلائے گی
تم سلامت رہو وحشت جاں سے کیا کچھ ہوائے زمستاں ہی بہلائے گی
مرگ عشاق ارزاں ہوئی بھی تو کیا موسم گل میں تازہ ہوا آئے گی
جس کے کوزے کے پانی سے دوزح بجھے اور انگیٹھی کے شعلے سے جنت جلے
کوئی ایسا ہو گر صاحبان حرم کام اس وقت اس کی مثال آئے گی
چاک داماں سے ہے جو بہار آشکار اس پہ دور خزاں کا تسلط نہیں
اک تصور نمو کا بھی ہے کارگر شاخ گل آپ سینہ میں لہرائے گی
تم کہو تو چلا جاؤں اس شہر سے اس فضا میں ہلاکت ہے جاگی ہوئی
سارے ہانکے میں بھاگے ہوئے جانور یہ ہوا یہ صدا دل کو کھا جائے گی
رات کی یہ ہوا نرم ایسی کہ بس نیند کی ایک چڑھتی ہوئی بیل میں
جاگتی آنکھ میں بھی جو کھلتے رہیں پھول ایسے ہزاروں کھلا جائے گی
مر گیا مدنیؔ خوش نوا راہ میں جانتا تھا سر دشت اک روشنی
اس سے پہلے کہ منزل کوئی آ سکے پاؤں سن کر کے مرگ جنوں لائے گی
- کتاب : غزل اس نے چھیڑی-6 (Pg. 232)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ بکس ،بی۔37،سیکٹر۔1،نوئیڈا،اترپردیش۔201301 (2019)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.