تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
ہاے کیا بات تھی کیا بھول گیا
بھولی بھولی جو وہ صورت دیکھی
شکوۂ جور و جفا بھول گیا
دل میں بیٹھا ہے یہ خوف اس بت کا
ہاتھ اٹھے کہ دعا بھول گیا
خوش ہوں اس وعدہ فراموشی سے
اس نے ہنس کر تو کہا بھول گیا
حال دل سنتے ہی کس لطف سے ہاے
کچھ کہا کچھ جو رہا بھول گیا
واں کس امید پہ پھر جاے کوئی
اے دل اس بات کو کیا بھول گیا
ہوش میں آ کے سنا کچھ قاصد
یاد کیا ہے تجھے کیا بھول گیا
عہد کیا تھا مجھے کچھ یاد نہیں
یہی گر بھول گیا بھول گیا
میں ادھر بھول گیا رنج فراق
وہ ادھر عذر جفا بھول گیا
یاد میں ایک صنم کی ناصح
میں تو سب کچھ بخدا بھول گیا
خیر مجھ پر تو جو گزری گزری
شکر وہ طرز وفا بھول گیا
یاد اس کی ہے مری زیست نظامؔ
موت آئی جو ذرا بھول گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.