تمہارے پہلو میں زندگی نے جو سانس لی تھی وہ مر چکی ہے
تمہارے پہلو میں زندگی نے جو سانس لی تھی وہ مر چکی ہے
جو دشت میں میری ہم سفر تھی وہ ریت آنکھوں میں بھر چکی ہے
عجب رویہ ہے جنگلوں کا عجب روش ہے شکاریوں کی
ٹھمک ٹھمک کر ہوا جو چلتی تھی بن میں اب وہ بھی ڈر چکی ہے
وہ کس ستارے کی جستجو میں ہزار راتوں سے جاگتے ہیں
کوئی تو بتلائے راہبوں کو شب ستارہ گزر چکی ہے
میں کہکشاؤں کا ہم سفر ہوں میں چاند تاروں کا راہبر ہوں
مرے تخیل کی طشتری تو مریخ پر بھی اتر چکی ہے
اناج لے کر دعائیں دینے اب آ رہے ہو فقیر بابا
ہماری بستی جب اپنا مال و منال پانی پہ دھر چکی ہے
جو بربریت کے مرتکب ہیں زمیں پہ اب بھی وہ محتسب ہیں
خدا کے آگے فلک پہ خلقت کی آہ ماتم بھی کر چکی ہے
زمین زادے زمین زادوں پہ آپ ہی قہر ڈھ رہے ہیں
حیات انساں کی اس لئے تو اجڑ چکی ہے بکھر چکی ہے
نہ صبر سے جبر ہارتا ہے نہ خیر دیتی ہے مات شر کو
صمیم جتنے ہیں دربدر ہیں بدوں کی دنیا سنور چکی ہے
میں کیا بتاؤں کہ کیسا مرد عمل ہے مدفن میں دفن واصفؔ
لحد کے رخ پر وہ دیکھ میت کی اپنی صورت ابھر چکی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.