تمہیں پانے کی خاطر میں سمندر پار آئی تھی
تمہیں پانے کی خاطر میں سمندر پار آئی تھی
کہ جو کچھ پاس تھا میرے وہ سب کچھ وار آئی تھی
زمانہ بھی غضب کی چال میرے ساتھ چلتا تھا
عجب جیون کی بازی تھی میں خود کو ہار آئی تھی
وہاں پر کم سے کم تیری زیارت ہو ہی جاتی تھی
میں تیرا شہر یوں ہی چھوڑ کر بے کار آئی تھی
پڑے ہیں آبلے پاؤں میں رستے ہیں کٹھن کتنے
تو کیا اس دشت فرقت میں میں چننے خار آئی تھی
نہیں کوئی ضرورت اب مری نیندوں سے کہہ دینا
کسی کے خواب کی خاطر میں آنکھیں وار آئی تھی
چرا کر لے گیا مجھ کو یوں ہی وہ بے دھیانی میں
مجھے ملنے وہ آیا تھا میں جب اس بار آئی تھی
مجھے کب ہوش تھا دیکھوں اٹھائیں انگلیاں کس نے
میں تیری جستجو میں جب سر بازار آئی تھی
محبت سے کسی نے تھام کر گلدان میں رکھا
کنولؔ کو ساتھ لے کر پانیوں کی دھار آئی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.