تمہیں یہ وہم اشارہ تماری ذات سے تھا
تمہیں یہ وہم اشارہ تماری ذات سے تھا
غلط نہ سمجھو مخاطب میں کائنات سے تھا
مجھے یہ رنج سواد مشاہدات سے تھا
جواز جاں بھی یہاں مرگ خواہشات سے تھا
نہ اب وہ جہل نہ دانشوری کی باتیں ہیں
کہ حسن فلسفہ حسن تنازعات سے تھا
فساد شہر نہ تھا بے سبب کہ ربط اس کا
معاشیات سے تھا یا سیاسیات سے تھا
سحر کو باد صبا نے مجھے بکھیر دیا
میں اپنی خاک سنبھالے ہوئے تو رات سے تھا
بچا ہوا سے تو دھوپوں کی زد میں آ کے گرا
وہ برگ سبز جو موسم کی باقیات سے تھا
تعیشات میں سمجھا گیا اسے ناحق
تعلق اس کا ہماری ضروریات سے تھا
ہر ایک شخص کو تھی خواہش گزند وہاں
کہ اس کا دار بھی جیسے تبرکات سے تھا
وہ مر گیا تو خدا ہو گیا ہزاروں کا
وہ شخص اپنے ہی جیسا تھا جب حیات سے تھا
رؤفؔ خیر تعلق شروع سے اپنا
جمالیات سے تھا حسن شعریات سے تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.