تو اپنے ہونے کا ہر اک نشاں سنبھال کے مل
تو اپنے ہونے کا ہر اک نشاں سنبھال کے مل
یقیں سنبھال کے مل اور گماں سنبھال کے مل
ہم اپنے بارے کبھی مشتعل نہیں ہوتے
فقیر لوگ ہیں ہم سے زباں سنبھال کے مل
وجود واہمہ ویرانیوں میں گھومتا ہے
یہ بے کراں ہے تو پھر بے کراں سنبھال کے مل
یہ مرحلے ہیں عجب اس لیے سمندر سے
ہوا کو تھام کے مل بادباں سنبھال کے مل
اگرچہ دوست ہیں سارے ہی آس پاس مگر
اصول یہ ہے کہ تیر و کماں سنبھال کے مل
تو کیسی غیر یقینی فضا میں ملتا ہے
کوئی تو لمحہ کبھی درمیاں سنبھال کے مل
پھر اس کے بعد تو شاید رہے رہے نہ رہے
تمام عمر کا سود و زیاں سنبھال کے مل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.