تو اپنے شہر طرب سے نہ پوچھ حال مرا
تو اپنے شہر طرب سے نہ پوچھ حال مرا
مجھے عزیز ہے یہ کوچۂ ملال مرا
ابھی تو ہونا ہے اک رقص بے مثال مرا
دیئے کی لو سے ابھی دیکھنا وصال مرا
وہ درد ہوں کوئی چارہ نہیں ہے جس کا کہیں
وہ زخم ہوں کہ ہے دشوار اندمال مرا
تو کیا یہ وقت یونہی روندتا رہے گا مجھے
ڈراتا رہتا ہے مجھ کو یہی سوال مرا
جواز رکھتا ہوں میں اپنے زندہ ہونے کا
کہ ایک خواب سے ہے سلسلہ بحال مرا
ہوا کی دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی
چراغ پہلے نہ تھا اب ہے ہم خیال مرا
میں عکس بن کے اسی سے ابھرنا چاہتا ہوں
سو میرے آئنہ گر آئنہ اجال مرا
لہو کی نذر ہوا ایک ایک خواب نمو
ہوا کے ساتھ گیا خیمۂ خیال مرا
کبھی میں شعلہ تھا اب صرف راکھ ہوں اسلمؔ
ہلاک کر کے رہا مجھ کو اشتعال مرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.