تو ہوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دیا جلانے کی ضد نہ کر
تو ہوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دیا جلانے کی ضد نہ کر
یہ اداس لوگوں کا شہر ہے یہاں مسکرانے کی ضد نہ کر
میں ہوں دوستوں کا ڈسا ہوا مرا غم ہے حد سے بڑھا ہوا
میں شکستہ گھر کی مثال ہوں مرے پاس آنے کی ضد نہ کر
میں تری غزل تو نہیں ہوں نا جو ہر ایک لب پہ سجا رہوں
میں تو ایک مصرعۂ درد ہوں مجھے گنگنانے کی ضد نہ کر
ابھی لوٹ آ ابھی وقت ہے ابھی سانس باقی ہے جسم میں
تجھے علم ہے مری جاں ہے تو مجھے آزمانے کی ضد نہ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.