تو ہی نہیں گردش میں مورکھ گردش میں سنسار بھی ہے
تو ہی نہیں گردش میں مورکھ گردش میں سنسار بھی ہے
خورشید خاور امروہوی
MORE BYخورشید خاور امروہوی
تو ہی نہیں گردش میں مورکھ گردش میں سنسار بھی ہے
روگوں سے بھرپور ہے دنیا روگوں کی بھر مار بھی ہے
ماہ وشوں کی الفت میں کچھ جیت بھی ہے کچھ ہار بھی ہے
دل کی باتیں دل ہی جانے دل کو ہی آزار بھی ہے
مشق ستم کیجے دل بھر کر حاضر ہوں ہر طرح سے میں
چاہے جس سے گھائل کیجے ابرو بھی تلوار بھی ہے
عشق حقیقی میں مرنا تو عین سعادت ہے بے شک
کشتئ دل ڈوبے یا ابھرے ساحل بھی منجدھار بھی ہے
حسن طلب ہے اپنا اپنا چاہے جسے اپنا لیجے
گلشن ہستی میں سب کچھ ہے پھول بھی ہے اور خار بھی ہے
یہ دنیا آنی جانی ہے پیارے کون ہے کس کا میت
سب کو تو اپنا سمجھا ہے کوئی ترا غم خوار بھی ہے
جائز ہے مذہب میں اس کے فکر سخن کے ساتھ میں وعظ
خاورؔ کی بابت مت پوچھو زاہد بھی فنکار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.