تو خود بھی نہیں اور ترا ثانی نہیں ملتا
تو خود بھی نہیں اور ترا ثانی نہیں ملتا
پیغام ترا تیری زبانی نہیں ملتا
میں بیچ سمندر میں ہوں اور پیاس سے بیتاب
پینے کو تو اک بوند بھی پانی نہیں ملتا
دنیا کے کرشموں میں معمہ تو یہی ہے
دنیا کے کرشمات کا بانی نہیں ملتا
میرا بھی تو اک دوست تھا غم بانٹنے والا
اب دشت بلا میں وہی جانی نہیں ملتا
جو مرتا ہے جی اٹھتا ہے وہ روپ بدل کر
مجھ کو تو یہاں کوئی بھی فانی نہیں ملتا
شہکار سی تصویر مری کوئی بناتا
بہزاد میسر نہیں مانی نہیں ملتا
کعبے کے کسی گوشے میں مل جائے گا شاید
بت خانے میں فردوس مکانی نہیں ملتا
اسلوب پرانے ہیں تو الفاظ ہیں بے رنگ
نادر سا ظفرؔ طرز لسانی نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.