تو کیا جانے روح بھی زخمی ہوتی ہے
تو کیا جانے روح بھی زخمی ہوتی ہے
جب لفظوں سے دہشت گردی ہوتی ہے
آ جاتا ہے بن دستک کے وہ دل میں
پھر کب جائے اس کی مرضی ہوتی ہے
میں تو دیکھتا رہتا ہوں بس اس کا کھیل
روح و دل میں گتھم گتھی ہوتی ہے
اس نے نفرت گھول دی دل کے دریا میں
ہر منظر میں خون کی سرخی ہوتی ہے
مجھ کو مار کے زندہ رہنا ہے اس کو
اس کو کب مجھ سے ہمدردی ہوتی ہے
اور تو ہم سے کیا ہوتا ہے بس اتنا
درد میں ڈوبوں کی غم خواری ہوتی ہے
اس چھوٹے سے دل میں دنیا بس جائے
وہ دنیا جو غم کی ماری ہوتی ہے
اس سے ملوں تو ایک قیامت برپا ہو
خود کی خود سے پردہ داری ہوتی ہے
غم ہی رہتا ہے ہم جیسوں کے دل میں
دل بستی خوشیوں سے خالی ہوتی ہے
جن لوگوں کو میرے غم مل جاتے ہیں
ان کی ادا جینے کی نرالی ہوتی ہے
- کتاب : آہٹ دیوان عزیز (Pg. 266)
- Author : ارشاد عزیز
- مطبع : مرکزی پبلیکیشنز،نئی دہلی (2022)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.