تو مسیحا ہے تری ایک ادا کافی ہے
تو مسیحا ہے تری ایک ادا کافی ہے
جاں بہ لب کو ترے دامن کی ہوا کافی ہے
جب بھی یاد آؤں تصور میں تصور کرنا
مجھ سے ملنے کے لئے اتنا پتہ کافی ہے
میری نظروں کی خطا کم ہے ترے سر کی قسم
میرے دلبر ترے جلوؤں کی خطا کافی ہے
تیری فرقت نے جوانی کا مزہ چھین لیا
چاہنے والے کو بس اتنی سزا کافی ہے
کام آتے نہیں تا عمر یہ مٹی کے چراغ
آپ کی یاد کا بس ایک دیا کافی ہے
ساری دنیا کی دعائیں میں کہاں رکھوں گا
میری بخشش کے لئے ماں کی دعا کافی ہے
پھول کی طرح کھلے ہیں ترے زخموں کے گلاب
اور کیا چاہئے دلکشؔ یہ دوا کافی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.