تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا
تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا
ہم مر نہ گئے دل کو کڑھایا تو ہوا کیا
تصویر نہالی سے ہم آغوش رہے ہم
گر آ کے نہ ساتھ اپنے سلایا تو ہوا کیا
دیکھا ہی کیے تیرے تصور میں قمر کو
گر تا سحر اے یار! جگایا تو ہوا کیا
پھولوں کی رہی سیج جو خالی تو بلا سے
انگاروں پہ گر ہم کو لٹایا تو ہوا کیا
منہ لال ہوا غنچہ صفت خون جگر سے
ہاتھوں سے ترے پان نہ کھایا تو ہوا کیا
بہتر یہ ہوا نامہ و پیغام سے چھوٹے
گر آپ نہ آیا نہ بلایا تو ہوا کیا
دشمن کا اڑانے کو دھواں یہ بھی بہت ہیں
غیروں کے سکھانے سے جلایا تو ہوا کیا
مر جانے سے تو ہم رہے جوں پنجۂ مرجاں
ہاتھ اپنا جو مہندی سے بندھایا تو ہوا کیا
تو آپ ہی دیکھ انگلیوں کی فندقیں اودی
جامن کے جو پودوں کو لگایا تو ہوا کیا
دیکھا ہے بہت بھان متی کا یہ تماشا
سرسوں کو ہتھیلی پہ جمایا تو ہوا کیا
ہم سرو چمن دل کی ہر اک آہ کو سمجھے
اپنا قد موزوں نہ دکھایا تو ہوا کیا
ہم نے بھی محبت کو تری طاق پہ رکھا
ابرو جو سوئے غیر ہلایا تو ہوا کیا
یہ یاد رہے ہم بھی نہیں یاد کریں گے
گر تو نے ہمیں دل سے بھلایا تو ہوا کیا
مینا بہ بغل آبلۂ دل سے رہے ہم
جام مے گل گوں نہ پلایا تو ہوا کیا
دم اور ہی اک دوستی کا یار بھریں گے
منہ جوں نئے قلیاں نہ لگایا تو ہوا کیا
مت کہہ کہ تصور میں خط سبز کے میرے
گر شاہؔ نصیرؔ اشک بہایا تو ہوا کیا
ہے دلنے کو چھاتی پہ تری مونگ خط سبز
گر زہر غم ہجر کھلایا تو ہوا کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.