طول شب سامنے اک ہجر کی تنہائی ہے
طول شب سامنے اک ہجر کی تنہائی ہے
دل کے بہلانے کو یادوں کی مسیحائی ہے
دل ہے لبریز شکایت سے مگر کیا کیجے
پائے آداب میں زنجیر شکیبائی ہے
ان کے وعدہ پہ ذرا میں جو یقیں کرنے لگا
بولے گھبرا کے قسم ہم نے نہیں کھائی ہے
زندگی بھر مجھے آنسو تھے رلائے جس نے
چشم تر لے کے وہ تربت پہ مرے آئی ہے
ایک شاعر کے تصور سے کہاں چھپتا ہے
بند آنکھوں میں چھلکتی تری پرچھائی ہے
رک سی جاتی ہے گھٹا کر کے ترشح کچھ دم
کس تذبذب میں ہے کیوں آ کے یہاں چھائی ہے
کتنی امیدوں سے آغاز سفر کرتے ہیں
زندگی کیا ہے فقط فاصلہ پیمائی ہے
ہم نے سیکھا ہے یہ نیرنگ زمانہ سے امیرؔ
نہ مسیحا ہے یہاں اور نہ مسیحائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.