ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے
دلچسپ معلومات
(1969ء)
ٹوٹا ہے آج ابر جو اس آن بان سے
برسے گا کل لہو بھی ترے آسمان سے
یہ کس کے دل کی آگ سے جلتے ہیں بام و در
شعلے سے اٹھ رہے ہیں بدن کے مکان سے
سورج کی تیز دھوپ سے شاید اماں ملے
رکتی ہے غم کی دھوپ کہیں سائبان سے
چہروں پہ گرد آنکھوں میں نیندیں فضا خموش
سستا رہے ہیں لوگ سفر کی تکان سے
ہے اپنی اپنی طاقت پرواز کا کمال
مطلب کسی کو کیا تری اونچی اڑان سے
آخر چٹخ چٹخ کے بکھرنے لگا ہوں میں
ٹکرا گیا تھا رات خود اپنی چٹان سے
پھرتے ہیں شہر درد میں جو بے دلی کے ساتھ
نقاشؔ کاظمی ہیں وہی نوجوان سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.