ٹوٹا جو پھول شاخ سے تازہ نہیں ہوا
ٹوٹا جو پھول شاخ سے تازہ نہیں ہوا
مرنے کے بعد میں کوئی زندہ نہیں ہوا
تنہائیوں کی دھوپ نے جھلسا دیا بدن
ہم پر کسی کی زلف کا سایہ نہیں ہوا
اتنا بلند ہو گیا مجبوریوں کا قد
دونوں طرف سے ایک بھی شکوہ نہیں ہوا
مدت ہوئی کہ درد کی لذت نہ کم ہوئی
پیتا رہا شراب میں نشہ نہیں ہوا
اب تک ہمارے پاؤں میں ٹھوکر نہیں لگی
اب تک ہمارے ساتھ میں دھوکہ نہیں ہوا
عاشق کی بد دعا کا اثر دیکھ لیجیے
اس بے وفا کا آج بھی رشتہ نہیں ہوا
غیروں سے کیا امید رکھی جائے گی بھلا
ہم سے ہمارے درد پہ گریہ نہیں ہوا
کس درجہ خوش مزاج ہیں ہم ہم سے پوچھیے
اپنے ہی قاتلوں پہ بھی حملہ نہیں ہوا
جتنی ہمارے دل نے تباہی مچائی ہے
اتنا تو اس کی ذات سے خطرہ نہیں ہوا
ہم مستقل مزاج سوالی ہیں اس لیے
خاکی ہماری فکر کا کاسہ نہیں ہوا
تم کیا کسی کو عشق کے معانی بتاؤگے
گویا تمہارا سر سر نیزہ نہیں ہوا
اتنا الجھ گیا ہے مرے شعر میں وہ شخص
اتنا کے اس سے ٹھیک سے چربہ نہیں ہوا
بڑھ کر اداسیوں کو گلے سے لگا لیا
محورؔ شب فراق پہ غصہ نہیں ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.