ٹوٹے ہوئے دیے کو سنسان شب میں رکھا
ٹوٹے ہوئے دیے کو سنسان شب میں رکھا
اس پر مری زباں کو حد ادب میں رکھا
کس نے سکھایا سائل کو بھوک کا ترانہ
پھر کس نے لا کے کاسہ دست طلب میں رکھا
مفلس کی چھت کے نیچے کمھلا گئے ہیں بچے
پھولوں کو لا کے کس نے چشم غضب میں رکھا
پروردگار نے تو تقویٰ کی بات کی تھی
تم نے فضیلتوں کو نام و نسب میں رکھا
دراصل تم سے مل کر میں خود سے مل سکوں گا
بس ایک ہی سبب ہے دار السبب میں رکھا
بس دل کی انجمن ہے یادوں کے نسترن ہیں
اب اور کیا ہے باقی اس جاں بہ لب میں رکھا
احمدؔ میں بات دل کی کہتا تو کس سے کہتا
نغمہ سکوت کا تھا شور و شغب میں رکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.