ٹوٹی ہوئی کشتی کو کنارے بھی ملے ہیں
ٹوٹی ہوئی کشتی کو کنارے بھی ملے ہیں
طوفان سے دنیا کو سہارے بھی ملے ہیں
اغیار ہی خالی نہیں اغیار کی صف میں
دیکھا ہے تو کچھ دوست ہمارے بھی ملے ہیں
چھلکے ہیں جہاں جام تری بزم میں ساقی
کچھ لوگ وہیں پیاس کے مارے بھی ملے ہیں
پینے سے قدم یوں تو بہک جاتے ہیں لیکن
کچھ پاؤں جمانے کے سہارے بھی ملے ہیں
دو پاس کی ندیوں میں رہ و رسم نہیں ہے
حالانکہ کنارے سے کنارے بھی ملے ہیں
دنیا کے جہاں داغ نظر آئے ہیں دل میں
اس دل میں کئی زخم تمہارے بھی ملے ہیں
کھویا ہے اگر ایک چمکتا ہوا سورج
بدلے میں کئی لاکھ ستارے بھی ملے ہیں
دنیا میں کوئی جان سے پیارا نہیں ہوتا
کچھ لوگ مگر جان سے پیارے بھی ملے ہیں
دنیا کو شمیمؔ آج کے انداز غزل میں
کچھ زندہ مسائل کے اشارے بھی ملے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.