ٹوٹی ہوئی کشتی پہ بپھرتے ہوئے گرداب
ٹوٹی ہوئی کشتی پہ بپھرتے ہوئے گرداب
اللہ نگہبان ترا اے دل بیتاب
جو موج حوادث کے تھپیڑوں میں پلا ہو
موتی وہی ہوتا ہے جہاں میں در نایاب
پھر آج دعاؤں میں گھٹا مانگ رہا ہے
سوکھے ہوئے تالاب میں سہما ہوا سرخاب
اے زور علی فقر ابوذر سے برومند
بے زور ترے سامنے ہر رستم و سہراب
تریاک کے کوزے میں بھرا زہر ہلاہل
اللہ رے مے خانۂ مغرب کی مئے ناب
دل توڑنے والے تجھے معلوم نہیں ہے
سوکھی ہوئی آنکھوں سے ابل پڑتے ہیں سیلاب
نغمات سے بیزار مغنی سے گریزاں
سازوں کو ترس جائیں نہ ٹوٹے ہوئے مضراب
تو اپنی حقیقت کا شناسا نہیں ورنہ
دریا ترے دامن میں ہے اے ماہیٔ بے آب
بزمیؔ یہ جفاؤں کا سلگتا ہوا صحرا
اللہ رکھے تجھ کو زمانے میں ظفر یاب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.