عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا
عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا
ہے سرخیوں میں برابر قصور دریا کا
کسی پلک میں نمی تک نہیں رہی باقی
چلا گیا کہاں چہروں سے نور دریا کا
ہر ایک موج کی ہے نبض میرے ہاتھوں میں
میرے شعور میں ضم ہے شعور دریا کا
ہر ایک حرف سے اک تشنگی سی رستی ہے
احاطہ کرتی ہیں کیا یہ سطور دریا کا
بجا نہیں ہے کہ اس نے ڈبو دیا مجھ کو
بدن پہ داغ لگا ہے ضرور دریا کا
مری انا ہی بنے گی برسنے والی گھٹا
یہ خالی کوزے سے ہوگا ظہور دریا کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.