اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے
اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے
ترے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے
خیال موسم گل بھی نہیں ستم گر کو
بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے
فقیہ شہر سے انصاف کون مانگے گا
فقیہ شہر تو سر کاٹنے کو آتا ہے
اسی لیے تو کسانوں نے کھیت چھوڑ دئیے
کہ کوئی اور ثمر کاٹنے کو آتا ہے
ترے خیال کا آہو کہیں بھی دن میں رہے
مگر وہ رات ادھر کاٹنے کو آتا ہے
کہا تو تھا کہ ہمیں اس قدر بھی ڈھیل نہ دے
اب اڑ رہے ہیں تو پر کاٹنے کو آتا ہے
یہ کام کرتے تھے پہلے سگان آوارہ
بشر کو آج بشر کاٹنے کا آتا ہے
یہ اس کی راہ نہیں ہے مگر یوں ہی باقیؔ
وہ میرے ساتھ سفر کاٹنے کو آتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.