اداسی گھر میں رکھی کچھ خوشی چہرے پہ مل آئے
اداسی گھر میں رکھی کچھ خوشی چہرے پہ مل آئے
ہمیں لوگوں میں آنا تھا سو ہم چہرہ بدل آئے
ضروری تھا زمانے سے مراسم کا بھرم رکھنا
سو تھوڑی دیر ہم بھی رنگ میں دنیا کے ڈھل آئے
تمنا جس کی بر آئے وہ قسمت کب ہماری تھی
امیدوں کے شجر کو کیوں ہمارے کوئی پھل آئے
یہی اک راہ باقی تھی انا کی پاسداری کی
ضرورت کے تھے جتنے سانپ سب کے پھن کچل آئے
ہمیں بھی تشنگی کا تجربہ ہونا ضروری تھا
سو تپتی دھوپ میں صحرا کی کچھ دن ہم بھی جل آئے
وہی بے رنگ دیواریں وہی بے نور دروازہ
کہاں تک دیکھتے رہتے سو ہم گھر سے نکل آئے
ہمیں بھی اب کہاں اس زندگی سے آس ہے باقی
قضا آنا ہی جب ٹھہری تو آج آئے کہ کل آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.