اداسی ہی اداسی ہے بڑے بیزار بیٹھے ہیں
اداسی ہی اداسی ہے بڑے بیزار بیٹھے ہیں
نہ جانے کیا وہ بازی تھی جسے ہم ہار بیٹھے ہیں
ہوا کے ہاتھ میں ہے اف یہ کس موسم کا پروانہ
پرندے پھر پروں میں ڈال کر منقار بیٹھے ہیں
مشینوں کے سکوں نا آشنا اس دور میں یارو
کہاں وہ لوگ جو کہتے تھے ہم بے کار بیٹھے ہیں
کسی دیوار کا سایہ کہ کوئی موڑ کا پتھر
جہاں بیٹھے ہیں گویا درخور آزار بیٹھے ہیں
اسی کا نام ہے شاید رہ الفت کی مجبوری
کہیں سے بے سبب اٹھے کہیں ناچار بیٹھے ہیں
انہی لوگوں نے موجوں کو سفینوں کی ادا دی ہے
ابھی اس پار اٹکے تھے جو اب اس پار بیٹھے ہیں
نیاز و ناز کی وہ کشمکش بھی اب کہاں راہیؔ
جسے ہم دل سمجھتے تھے اسے بھی مار بیٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.