اداسی کیا بتاؤں اپنے گھر کی
اداسی کیا بتاؤں اپنے گھر کی
فضا خاموش ہے اب بام و در کی
تلاش اور وہ بھی حسن رہ گزر کی
کہاں تکمیل ہو ذوق نظر کی
یہی روداد ہے بس عمر بھر کی
جہاں سایہ ملا ہم نے بسر کی
خرد ہے روز و شب کی کشمکش میں
جنوں کو فکر کیا شام و سحر کی
دل ایذا طلب ہی جانتا ہے
کرشمہ سازیاں حسن نظر کی
ہمیشہ فکر ساحل بحر غم میں
کبھی طوفاں پہ بھی تو نے نظر کی
ہماری احتیاج زندگی میں
دعا محتاج پھرتی ہے اثر کی
قفس سے اڑ کے جائیں گے کہاں ہم
ضرورت کیا رہی اب بال و پر کی
مدار اس کا ہوا جاتا ہے شر پر
بری حالت ہے اب نوع بشر کی
اجل سر پر کھڑی ہے آ کے غافل
ارے کچھ فکر کر رخت سفر کی
کہاں ہے آج کل خوشترؔ وہ دنیا
جہاں کچھ قدر ہوتی ہے ہنر کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.