اداسیوں کا سمندر ہے تشنہ لب اب بھی
اداسیوں کا سمندر ہے تشنہ لب اب بھی
خموشی کل بھی مرے گھر میں تھی عجب اب بھی
اسے تو پا لیا میں نے بڑے وثوق کے ساتھ
پریشاں کرتی ہے پھر کون سی طلب اب بھی
چلو یہ مان لیا ہے قریب شہ رگ سے
سمجھ میں آتا نہیں ہے مجھے تو رب اب بھی
سلام کرنے لگا ہوں میں آتے جاتے اسے
جواب ہی نہیں دیتا وہ بے ادب اب بھی
کہ اب تو وصل ہے یہ ہجر بھی نہیں لیکن
چلی ہی آتی ہے اکثر اداس شب اب بھی
میں سوچتا ہوں کے ماضی بھلا ہی دوں ورنہ
میری شکست کا بن سکتا ہے سبب اب بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.