ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے
ادھڑے ہوئے ملبوس کا پرچم سا گیا ہے
بازار سے پھر آج کوئی ہم سا گیا ہے
جھونکا تھا مگر چھیڑ کے گزرا ہے کچھ ایسے
جیسے ترے پیکر کا کوئی خم سا گیا ہے
چھوڑوں کہ مٹا ڈالوں اسی سوچ میں گم ہوں
آئینے پہ اک قطرۂ خوں جم سا گیا ہے
گالوں پہ شفق پھولتی دیکھی نہیں کب سے
لگتا ہے کہ جسموں میں لہو تھم سا گیا ہے
آنکھوں کی طرح دل بھی برابر رہے کڑوے
ان تنگ مکانوں میں دھواں جم سا گیا ہے
سجادؔ وہی آج کا شاعر ہے جو پل میں
بجلی کی طرح کوند کے شبنم سا گیا ہے
- کتاب : Dariche (Pg. 48)
- Author : Bashir Saifi
- مطبع : Shakhsar Publishers (1975)
- اشاعت : 1975
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.