اڑتے ہیں دو چار پرندے منظر دھندلا دھندلا ہے
اڑتے ہیں دو چار پرندے منظر دھندلا دھندلا ہے
پردے پر اک گیند لگی ہے یا سورج کا سایہ ہے
ننھی منی گڑیا جیسی صورت تھی اک لڑکی کی
اب وہ لاکھوں کے مجمع میں ٹرین پکڑتی چڑیا ہے
قابو میں جتنی تھیں باتیں ہم نے ان کو روک لیا
کچھ باتوں کا منہ سے نکلنا بے قابو کی جوالا ہے
کس سے کس کو مات ہوئی یا کس نے کس کو چھین لیا
یہ رشتوں کی اصل ہے پیارے یہ رشتوں کی مالا ہے
علی ظہیرؔ کے دل سے پوچھو دکھ جو اس نے جھیلے ہیں
کاندھوں پر ہے بوجھ صدی کا آنکھوں میں سناٹا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.