اف یہ برفانی ہوا تیرے بغیر
اف یہ برفانی ہوا تیرے بغیر
کیا پیوں او بے وفا تیرے بغیر
پاؤں میں ڈالی ہوئی زنجیر ہے
زندگی کا سلسلہ تیرے بغیر
ہے غلاموں کے دلوں کی بے حسی
یہ ہوا اور یہ فضا تیرے بغیر
دشت تیرہ کی خموش افتاد ہے
زندگی کا مدعا تیرے بغیر
زندگی اور پھر ہماری زندگی
ہے گناہوں کی سزا تیرے بغیر
زندگی اور زندگی کی دھوپ چھاؤں
تابکے اور تا کجا تیرے بغیر
دیدۂ بے نور ہے میرے لئے
آرزوؤں کی بقا تیرے بغیر
زاہدوں کے دل کی ہے بے مائیگی
محفل ارض و سما تیرے بغیر
کیوں سنبھالا لے لیا بیمار نے
ہائے یہ کیا ہو گیا تیرے بغیر
یہ تعجب ہے کہ زندہ ہے ابھی
بسملؔ درد آشنا تیرے بغیر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.