افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید
افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید
اسی کی جانب چلی ہے شام و سحر کی یہ رہ گزار شاید
قفس میں دور و دراز سے بھینی بھینی خوشبو سی آ رہی ہے
چمن چمن ہم کو ڈھونڈتی ہوگی موج فصل بہار شاید
ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے
ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید
نہ شب کے گیسو سنور سکے اور نہ دن کے رخ پر نکھار آیا
ازل سے مشاطگی کا ہر مدعی ہے ناپختہ کار شاید
جو ہر نظر کو بھگو گئی ہے جو ہر نفس کو ڈبو گئی ہے
وہی تغیر کی موج اک دن بنے گی وجہ قرار شاید
وہی ہے انداز بے نیازی وہی ہے رفتار بے شعوری
ابھی تک آنکھوں میں موجزن ہے گئے دنوں کا خمار شاید
نہ جانے حد نظر سے ٹکرا کے کیوں تمنائی لوٹ آئے
حدود ارض و سما کے آگے کھنچا ہوا ہے حصار شاید
- کتاب : Sarhane Ka Charagh (Pg. 105)
- Author : Azeez Tamannai
- مطبع : Modern Publishing House, New Delhi (1992)
- اشاعت : 1992
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.