افق پہ دودھیا سایہ جو پاؤں دھرنے لگا
افق پہ دودھیا سایہ جو پاؤں دھرنے لگا
مہیب رات کا شیرازہ ہی بکھرنے لگا
تمام عمر جو لڑتا رہا مرے اندر
مرا ضمیر ہی مجھ سے فرار کرنے لگا
سفر میں جب کبھی لا سمتیوں کا ذکر ہوا
ہمارا قافلہ طول سفر سے ڈرنے لگا
سلگ رہا ہے کہیں دور درد کا جنگل
جو آسمان پہ کڑوا دھواں بکھرنے لگا
چڑھی ندی کو میں پایاب کر کے کیا آیا
تمام شہر ہی دریا کے پار کرنے لگا
عجیب کرب سے گزرا ہے جگنوؤں کا جلوس
کہاں ٹھہرنا تھا اس کو کہاں ٹھہرنے لگا
ہمارے ساتھ رہی ہے سفر میں بے خبری
جنوں میں سوچ کا امکان کام کرنے لگا
بہت عجیب ہے باطن کی گمرہی اے رندؔ
سکوت ظاہری ٹکڑوں میں تھا بکھرنے لگا
- کتاب : Bujhte Lamhon ka Dhuaan (Pg. 68)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.