اجاڑتی ہوئی تقدیر سے بندھا ہوا ہے
اجاڑتی ہوئی تقدیر سے بندھا ہوا ہے
یہ دل ہے اور غم تعمیر سے بندھا ہوا ہے
وہ کیا ہے جو مجھے تیرے قریب رکھتی ہے
درخت کون سی زنجیر سے بندھا ہوا ہے
خدا ضرور کرے گا مری طرف داری
مصور اپنی تصاویر سے بندھا ہوا ہے
سخن وری تو گھٹاتی ہے صرف دل کا غبار
سکون شعر کی تشہیر سے بندھا ہوا ہے
میں اپنے آپ سے کیسے الگ کروں اس کو
یہ نقش پا ہی تو رہ گیر سے بندھا ہوا ہے
پرائے مصرعے کو مردار مانتا ہوں میں
مرا شکار مرے تیر سے بندھا ہوا ہے
یہ ہونٹ بوسہ لیے بن نہیں رہیں گے کبھی
قلم کوئی بھی ہو تحریر سے بندھا ہوا ہے
بحور حضرت غالبؔ سے لے کے آئے ہیں
خیال میر تقی میرؔ سے بندھا ہوا ہے
ہمیں نہ نیند کی قلت نہ خواب کی حمزہؔ
ہمارا مسئلہ تعبیر سے بندھا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.