عجلت کو اختیار نہ کر انتظار کر
عجلت کو اختیار نہ کر انتظار کر
خود پر جنوں سوار نہ کر انتظار کر
یہ اضطرار ضعف جنوں کی دلیل ہے
یوں خود کو بے قرار نہ کر انتظار کر
مانا کہ شہر دل کی فصیلوں میں چھید ہیں
قائم ابھی حصار نہ کر انتظار کر
بیٹا یہ عمر تاب طلب کاٹنے کی ہے
اس کمسنی میں پیار نہ کر انتظار کر
ممکن ہے شیخ جاں کی تجلی فریب ہو
دنیا و دیں نثار نہ کر انتظار کر
ہوں گے ضرور ختم یہ دردوں کے سلسلے
دریائے صبر پار نہ کر انتظار کر
رزم وفا میں سہہ کے دکھا تیر طنز کو
تیغ زباں سے وار نہ کر انتظار کر
کہہ کہہ کے بار بار جدائی کی بات کو
تو اور پائیدار نہ کر انتظار کر
دشت جنوں ابھی ہے غبار حواس میں
یوں شتر بے مہار نہ کر انتظار کر
آزادؔ ہو گئے ہیں اسیران راستی
اب دل کا اعتبار نہ کر انتظار کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.