اکتایا ہوں اس مفت کے سامان سفر سے
اکتایا ہوں اس مفت کے سامان سفر سے
یہ بوجھ ہی ایسا ہے اترتا نہیں سر سے
اک عمر گزاری ہے ترے شہر میں لیکن
آنکھیں نہیں کھولیں کبھی ظلمات کے ڈر سے
اس بار بچھڑ جانا ہے جیسے کبھی پتے
گر جائیں تو ملتے نہیں دوبارہ شجر سے
تھک ہار کے رک جائے گی یہ وقت کی گردش
جس روز زمیں نکلے گی سورج کے اثر سے
سکے جو نکالے مرے کشکول سے اس نے
آنکھیں بھی نکالی ہیں مرے کاسۂ سر سے
وہ چاند بھی اس چاند کی تقلید میں اکثر
کچھ دور ٹھہر جاتا ہے آ کر مرے گھر سے
مسعودؔ مری ذات کو محفوظ کیا ہے
اس شور شرابے نے کسی خواب کے ڈر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.