الجھتی ہاری نگاہوں کا ہم رکاب تو تھا
الجھتی ہاری نگاہوں کا ہم رکاب تو تھا
ہزار ٹوٹا ہوا تھا وہ ایک خواب تو تھا
میں ان سے کہتا تھا اک دن بچھڑ ہی جائیں گے ہم
سو سوجھتا ہمیں پہلے سے کچھ حساب تو تھا
اب اس پہ کوئی نہ منزل نہ کوئی دوست سہی
مگر یہ راستہ ہی میرا انتخاب تو تھا
یہاں پہ موت سا آ کر ہمارا پڑ رہنا
خلاف زندگی ہی ایک ارتکاب تو تھا
اسی کی ضو ہی سے روشن تھے رات دن میرے
وہ دور بھی مرا مہتاب و آفتاب تو تھا
کسا ہوا عجب اک راہ پر رہا جیون
کہ سخت سچ مرا مجھ پر اک احتساب تو تھا
کچل رکھا تھا مجھے جس نے میرے اندر میں
وہ باہر آن مری میری تاب ناب تو تھا
وفا کا رنج بھی کچھ اس میں تھا مگر دل کا
دو لخت ہوتا بھی اک زندگی کا باب تو تھا
وہ جس نے مجھ کو نیا آدمی کیا کاوشؔ
نظر نہ آیا مگر ایک انقلاب تو تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.