الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے
الفت کی اگر روداد سنو تو میرا فسانہ کافی ہے
ہاں ذکر جفائے دوست نہیں بیداد زمانہ کافی ہے
ہم سے تھا عبارت خندۂ گل ہر بات پہ آ جاتی تھی ہنسی
اب عظمت گریہ ہم سے ہے رونے کو بہانہ کافی ہے
اس دور جنوں میں اپنا پتہ ہم اس کے سوا کیا سمجھائیں
اک نقش قدم سجدوں کے نشاں بس اتنا ٹھکانہ کافی ہے
پہنچا کہ نہیں اس تک کوئی اس کی تو کوئی تحقیق نہیں
ہم سوئے حریم دوست اگر ہو جائیں روانہ کافی ہے
دنیا کو بھلا ہم کیا دیں گے خود دست نگر ہیں ہم ان کے
کچھ ان پہ تصدق کرنا ہو تو غم کا خزانہ کافی ہے
بس ہم تو محبت کرتے ہیں ہم حمد و ثنا کو کیا سمجھیں
سنتے ہیں رجھانے کو ان کے الفت کا ترانہ کافی ہے
بیگانہ ہوا ہر شخص یہاں ہم جس کو شفاؔ اپنا سمجھے
اب اس کا دامن تھام لیا بس وہ ہی یگانہ کافی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.