الجھے نہ عشق سے کہو دیر و حرم سے کیا غرض
الجھے نہ عشق سے کہو دیر و حرم سے کیا غرض
پیر مغاں سے کام کیا نقش قدم سے کیا غرض
اپنے شریک بھی نہیں غیروں کو ہم سے کیا غرض
سچ ہے کسی کو سوز دل دیدۂ نم سے کیا غرض
سن لو مریض عشق کا اب تو علاج ہو چکا
خود ہی مسیحا جب کہے ایسے کو دم سے کیا غرض
پیشہ ہو جس کا کینہ و جور و جفا تو ہے بجا
جلوہ فگن ہو کس لئے مہر و کرم سے کیا غرض
صدقے ہزار بار ہوئے کہنے پہ جس کے مر مٹے
پھر بھی نہ وہ مرے ہوئے کہتے ہیں ہم سے کیا غرض
محفل دل ربا میں کیوں چرچا مرا کوئی کرے
میرے رقیب کو مرے رنج و الم سے کیا غرض
جام شراب کون دے رندوں کو اپنی ہے پڑی
خم سے لگے ہیں شیخ جی ساقی کو ہم سے کیا غرض
کوئی بلانے آئے کیوں گھر سے ہمیں لے جائے کیوں
پیر مغاں تو ہم نہیں رندوں کو ہم سے کیا غرض
زاہد سادہ لوح کیوں تقوے پہ تجھ کو ناز یوں
تیرے خدا کو نا سمجھ طوف حرم سے کیا غرض
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.