امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے
امید کی کوئی چادر تو سامنے آئے
میں رک بھی جاؤں ترا گھر تو سامنے آئے
میں راہ عشق میں خود کو فنا بھی کر دوں گا
مرے حبیب وہ منظر تو سامنے آئے
ہمارے بازو کا دنیا کمال دیکھے گی
عدو کا کوئی بھی لشکر تو سامنے آئے
میں احترام سے دستار اس کے سر باندھوں
وہ فن شناس سخنور تو سامنے آئے
کروں گا عمر بھر اس پر میں پیار کی بارش
وہ خوش جمال سا پیکر تو سامنے آئے
سر نیاز جھکے گا خود اس کے قدموں میں
وہ لے کے ہاتھ میں خنجر تو سامنے آئے
میں ایک سنگ ہوں مجھ میں ہیں صورتیں پنہاں
مجھے تراشنے آذر تو سامنے آئے
فدائے عشق ہوں مرنے کا ڈر نہیں فردوسؔ
مجھے ڈبونے سمندر تو سامنے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.